ایرانی وزیر خارجہ: امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا کوئی پلان نہیں

تہران (ارنا) اس سوال کے جواب میں کہ دونوں فریقوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بالواسطہ ہوگا اور پھر براہ راست مذاکرات میں تبدیل ہوجائے گا، ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی جو آج صبح (9 اپریل) الجزائر کے دارالحکومت پہنچے ہیں، نے روانہ ہونے سے پہلے صحافیوں کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس سفر کے مقاصد اور اہمیت کے بارے میں کہا کہ ایران اور الجزائر کے تعلقات پرانے اور مضبوط ہیں۔

عمان میں ایران اور امریکہ کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر خارجہ نے کہا کہ جیسا کہ اعلان کیا گیا تھا اور میں نے کل رات ایک ٹویٹ میں بتایا تھا، مذاکرات ہفتہ کے روز عمان میں ہوں گے۔ یہ مذاکرات بالواسطہ طور پر کیے جائیں گے، اور ہم مذاکرات کا کوئی دوسرا طریقہ قبول نہیں کریں گے۔

آئندہ مذاکرات کی شکل کی وضاحت کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ میرے خیال میں مذاکرات کا طریقہ (خواہ وہ براہ راست ہو یا بالواسطہ) بنیادی اہمیت نہیں رکھتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مذاکرات کارآمد ہیں یا بے اثر، فریقین کی سنجیدگی، ان کی نیت، ارادے اور معاہدے تک پہنچنے کے لیے ان کی مرضی اہم عناصر ہیں۔

وزیر خارجہ نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اس قسم کے مذاکرات کوئی انوکھی بات نہیں ہے، کہا کہ بین الاقوامی تعلقات کی تاریخ میں اس قسم کے مذاکرات کئی بار ہو چکے ہیں۔ ایسے ممالک ہیں جو تاریخی اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرنے کو تیار نہیں، مثال کے طور پر، روس اور یوکرین کے درمیان مذاکرات اس وقت بالواسطہ طور پر امریکہ کے ذریعے ہو رہے ہیں۔ چونکہ دونوں فریق ذاتی وجوہات کی بنا پر براہ راست ملاقات کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے ایک ثالث کے ذریعے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بالواسطہ ہوگا اور پھر براہ راست مذاکرات میں بدل جائے گا، وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم نے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔

ایران اور امریکہ کے درمیان آئندہ مذاکرات کے محور کے بارے میں عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کے محور کے بارے میں، یہ فطری بات ہے کہ کوئی بھی اپنی خواہشات کا اظہار کرسکتا ہے۔ جیسے اسرائیلی حکام  لیبیا کے مذاکراتی ماڈل کی خواہش رکھتے ہیں جو حقیقتا کبھی پوری نہیں ہو گی اور ہم ایرانی عوام کے مفادات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں اور ہمارا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن اور جائز ہے۔

عراقچی نے تاکید کی کہ مذاکرات میں ہمارا بنیادی مقصد ایرانی عوام کے حقوق کا حصول اور پابندیاں ہٹانا ہے۔ اگر سامنے والے سنجیدہ ارادہ رکھتے ہیں (قطع نظر اس کے کہ طریقہ کوئی بھی ہو، خواہ براہ راست ہو یا بالواسطہ) تو یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .